مرون گھٹنوں کو چھوتی قمیض کے ساتھ سفید ٹراوزر میں پہنے، پاوں میں سفید چپل اور سر پہ سلیقے سے اوڑھی ہوئی سفید شال میں سارہ تیز قدموں اٹھاتی ہوئی مین گیٹ کی جانب چل رہی تھی کہ یکا یک سارہ کے والد سکندر کی رعب دار آواز آئی، “رکو سارہ”
سکندر صاحب کی بھاری آواز سن کر سارہ نے گھبراتے ہوئے سلام کیا۔ انہوں نے وعلیکم السلام کرتے ہی پوچھا کہ صبح کہاں جا رہی ہو؟ تمہاری گریجویشن تو ہو گئی ہے۔
وہ بابا ایک کمپنی میں سی وی جمع کرائی تھی، تو انہوں نے انٹرویو کیلئے بلایا ہے آج۔ یہ سنتے ہی سکندر صاحب نے کہا، واہ واہ جاب کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اور باپ سے اجازت لینا بھی گورا نہ کیا۔ کیا یہ ھے سالہ تعلیم کا نتیجہ ؟
میں نے سوچا انٹرویو میں جاب کنفرم ہو جائے تو بتاؤں گی۔
بس بہت ھو گیا، سکول سے لے کے یونیورسٹی تک ہمیشہ بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھایا تاکہ شعور آئے۔ اس لئے نہیں کہ روپے پیسے کمانے کیلئے جوتیاں چٹخاو۔
“مگر میں۔۔۔۔۔” بس ! ہمارے خاندان میں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی، سکندر صاحب نے سارہ کو ٹوکتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا۔
وطن عزیز میں خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب نوکری کے میدان میں قدم رکھتی ہیں تو انہیں بیش بہا مسائل کا سامنا کرنا پڑھتا ھے۔ جن میں سر فہرست معاشرے کے منفی رویے، سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں، سہولیات کی کمی، دقیانوسی خیالات، صنفی امتیاز، ذاتی سلامتی کے خطرات وغیرہ شامل ہیں۔ معاشرے میں ہراسمنٹ کا مسائل، غالب مردانہ رویہ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان، غیرت کا مسئلہ اور عورت کی عزت عصمت کے مسائل کی بناء پر مرد حضرات عورت کو چاردیواری میں مقید رکھنے کو ہی مناسب سمجھتے ہیں۔
معاشرہ عورت اور مرد جنس کی دو بنیادی اکایوں سے مل کے بنا ہے۔ آپ 24/7 کسی عورت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ آخر کو اسے اس سماج میں نکلنا ہے جہاں اسے اچھے مردوں سے لیکر بری نیت والی کالی بھیڑوں تک ھر قسم کے مرد و زن سے سامنا کرنا پڑے گا۔ بجائے اس کے کہ آپ اسے چار دیواری میں مقید کریں، اسے معاشرے کے مسائل سے آگاہ کریں، اسے شعور دیں، اسے بااختیار اور طاقتور بنائے، اسے بتائیں کہ ان کالی بھیڑوں کو کیسے پہچاننا ھے۔ تعلیم ہی وہ کلیہ ہے جو اسے مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کا گر سکھائے گی، اور اپنے حقوق و فرائض کو بہتر طور پہ نبھانے کا سلیقہ بھی۔
بدقسمتی سے پاکستانی ریاست اور معاشرہ خواتین کو نظر انداز کر رہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے والی خواتین کو نہ تو انعام دیا جاتا ہے، اور نہ ہی ان کی صلاحیتوں کا مؤثر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ خواتین جو دقیانوسی تصورات اور صنفی امتیاز کے خلاف لڑ کر اعلی تعلیم کے حصول میں کامیاب ھو جاتی ہیں، انہیں پیشہ وار مافیا کا سامنا کرنے کے بعد انھیں معلوم ہو جاتا ہے، کہ اصل اور بڑے مسائل تو اب شروع ہوگئے، بقول شاعر کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
سن 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر خواتین ماہرین تعلیم کام اور گھر کی ذمہ داریوں کو متوازن کرنے میں مدد اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، چاہے وہ گھر میں ہوں یا کام کی جگہ پر۔
یہ رویہ نقصان دہ ہے کیونکہ، کیونکہ یہ بات وسیع پیمانے پر تسلیم کی جاتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین انسانی سرمائے کی تعمیر اور مجموعی سماجی، ثقافتی، اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک باشعور، معاشی طور پر مستحکم اور اپنے حقوق و فرائض سے بخوبی آگاہ خاتون نہ صرف معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھتی ہے بلکہ تعلیمی نظام کا مؤثر استعمال کرتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔
گوگل کی حالیہ رپورٹس اور یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے تعلیمی نظام میں صنفی تفاوت نمایاں طور پر برقرار ہے، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم میں اکثر خواتین کی نمائندگی کم ہے۔
ثانوی تعلیم کی سطح پر پاکستان کے نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (NEMIS) 2021-2022 کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ لڑکیوں کے اندراج کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مگر وہ اب بھی معاشرتی اصولوں، کم عمری کی شادیاں اور اسکولوں تک محدود رسائی کی وجہ سے لڑکوں سے پیچھے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں ثانوی تعلیم کے لیے صنفی برابری کا انڈیکس (جی پی آئی) 0.85 بتایا جاتا ہے، جو کہ ایک نمایاں صنفی فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی مجموعی لیبر فورس میں شرکت کی شرح (LFPR) 21 فیصد ہے، جو عالمی شرح 39 فیصد سے کافی کم ہے۔ قومی سطح پر خواتین (15-64 سال کی عمر تک) کی بہتر (LFPR) مردوں کے لیے 84 فیصد کے مقابلے میں 26 فیصد پر بہت کم ہے۔ اک اندازے کے مطابق پاکستانی یونیورسٹیوں میں خواتین تدریسی عملے کا صرف 39.7 فیصد حصہ ہیں۔ جب ہم تعلیمی عہدوں، فیصلہ سازی کے اداروں اور قائدانہ کرداروں میں خواتین کی نمائندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو صنفی مساوات یا برابری کا دعویٰ کمزور اور گمراہ کن دکھائی دیتا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (STEM) کے شعبوں میں خواتین کی موجودگی کم ہے۔
سرکاری اور نجی دونوں یونیورسٹیوں میں خواتین قائدانہ عہدوں پر نمایاں اقلیت میں ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستانی یونیورسٹیوں کے صرف 15 فیصد وائس چانسلرز (VCs) اور ریکٹرز خواتین ہیں، اور فیصلہ سازی کے اہم اداروں (سنڈیکیٹ/BoG، سینیٹ، ASRB، اکیڈمک کونسل، بورڈ آف فیکلٹی، بورڈ آف اسٹڈیز، فنانس اینڈ پلاننگ وغیرہ) میں بھی ان کی تعداد کم ہے۔ سنڈیکیٹ (BoGs) میں خواتین کی موجودگی 17 فیصد، سینیٹ میں 15 فیصد، اور (ASRB) کے ارکان میں ان کا تناسب 7 فیصد ہے۔ اکیڈمک کونسلز میں خواتین کا تناسب 5 فیصد، بورڈ آف فیکلٹیز میں 25 فیصد، بورڈ آف اسٹڈیز میں 21 فیصد اور فنانس اینڈ پلاننگ میں 24 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار موجودہ صنفی تعلیمی ثقافت اور مردوں کے ذریعے وضع کردہ ‘حکمران متن’ پرایک گہری نظر ڈالتے ہیں اور صاف نظر آتا ھے کہ کس طرح ان تعلیمی پالیسیوں نے تعلیمی مراکز میں صنفی کردار کو دیوار سے لگایا ھوا ھے۔
پاکستان میں خواتین کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ خاص طور پر (STEM اور IT) کے شعبوں میں خواتین کے لیے خصوصی اسکالرشپ اور جابز کے مواقع فراہم کرنا اور ورک پلیس پالیسیز میں فیملی فرینڈلی اقدامات شامل کرنا اہم ہیں۔
کامیاب بین الاقوامی ماڈلز کو مقامی تناظر میں اپنانا خواتین کے لیے مخصوص ترقیاتی پروگرامز اور تربیتی ورکشاپس کا انعقاد اور حکومت تعلیمی ادارے اور کاروباری اداروں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینا ضروری ہے۔ کمیونٹی بیسڈ تنظیموں کی مدد سے آگاہی بڑھانا اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے خواتین کے حقوق اور مواقع میں بہتری لائی جا سکتی ہے، جو
معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
تحریر۔ مریم شکیل