خود کو کیسے بدلنا ہے؟

Spread the love

کیا آپ اپنی عادتیں، سوچ، طرزِ زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں؟؟

یقیناً ہم سب اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ ضرور بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر کو وہ زندگی/شخصیت چاہیے ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن اس نئی زندگی/شخصیت کو حاصل کرنے کے لیے وہ پہلا قدم جو سب سے ضروری ہے اس آرٹیکل میں اسی پر بات کروں گی۔

میرے پاس بہت سے کلائنٹ آتے ہیں اور انکا یہی کہنا ہوتا ہے میڈم کوئی ایسا طریقہ بتائیں یا کوئی ایسی موٹیویشن ہو جس سے کہ ہماری عادتیں، لت یا طلب ختم ہوجائے، وہ بھی راتوں رات یا پھر جلد از جلد۔ لائف کوچ ہوں یا تھراپسٹ سب آپ سے کہتے ہیں کہ فلاں فلاں باتوں پر عمل کرو تو تمہاری زندگی میں بدلاؤ آجائے گا، لیکن ایسا بدلاؤ جو اپنی قوتِ ارادی یا باہر کی موٹیویشن سے آئے وہ دیرپا نہیں ہوتا۔ کچھ عرصے بعد آپ واپس اسی جگہ خود کو پاتے ہیں جہاں سے آپ نے شروعات کی تھی۔

بدلاؤ کی جانب پہلا قدم ”قبولیت“ ہے۔ سب سے پہلے ان عادات اور طرزِ زندگی کو قبول کرنا جو آپ کی ”موجودہ حقیقت“ ہیں۔

ایک بات یاد رکھیے گا کہ اس دنیا میں آپ کو محبت، نفرت، دھوکہ، بھروسہ، پلیژر، درد ہر قسم کا جذبہ جگانے یا جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بہت ملیں گے لیکن اگر کوئی انسان نایاب یا پھر ناپید کہہ لیں، ہے، تو وہ ہے ”قبول“ کرنے والا….. میں آپ کو ایسا انسان ہرگز ڈھونڈنے کا مشورہ نہیں دونگی، البتہ آپ نے ایسا انسان بننا ضرور ہے، جو خود کو ”قبول“ کرے بلکل ویسے جیسا وہ ہے۔

اب بدلاؤ کی جانب جو رستہ جاتا ہے وہ اتنا سیدھا نہیں ہے، اور نہ ہی ہر انسان کے لیے ایک سا کیونکہ ہر انسان اور اسکی زندگی کا سفر منفرد ہے۔ البتہ اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اس رستے کی شروعات اور پہلا قدم ”قبولیت“ ہے اور اس کے بغیر آپ دیرپا بدلاؤ نہیں لاسکتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرنا کیسے ہے؟؟؟

ذہن اور جسم کا رشتہ بہت ہی عجیب ہے، ذہن چاہے تو کائنات کی سیر کرکے آجائے، ایک بے عیب شخصیت/زندگی کی منصوبہ بندی کرکے آپ کو اسے حاصل کرنے کو کہے، لیکن جسم ایسا نہیں کرسکتا، جسم کی حدود ہیں اور اسے چیزیں سمجھنے اور اسکا عادی ہونے میں وقت لگتا ہے۔ آپ کے ذہن کے پاس ساری معلومات اور علم آ بھی جائے، (صحیح معلومات سب سے ضروری قدم ہے کیونکہ یہ نہیں تو عمل کیسے ہوگا) لیکن اس علم کو عملی جامعہ پہنانے میں آپ کو جسم کا ساتھ اور اسکی مدد درکار ہے، یعنی کہ آپ کو ”کرم“(عمل) کرنا ہے اور وہ محض ذہن سے ممکن نہیں ہے اس کے لیے سب سے اہم کردار آپ کے جسم کا ہے۔ موٹیویشن یعنی کہ ”ڈوپامین“ کا ہارمون خارج ہوتا ہے تب ہی آپ کے جسم میں توانائی آتی ہے اور آپ ”عمل (ایکشن)“ کرپاتے ہیں۔ یہاں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کے ”جذبات “(انزائٹی اور مختلف منفی جذبات) ہوتے ہیں۔ جسم میں اضطراب (انزائٹی) کا ہارمون ”کورٹیسول“ اور موٹیویشن کا ہارمون ”ڈوپامین “ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، یا تو ”اضطراب (منفی جذبات)“ ہوگا یا پھر ”موٹیویشن“۔

اگر ”اسٹریس کا ہارمون(کورٹیسول)“ زیادہ مقدار میں ہوگا تو ”موٹیویشن کا ہارمون(ڈوپامین)“ کا اخراج نہیں ہوگا۔ اس لیے جتنا بدلاؤ کااسٹریس ہوگا اتنا ہی آپ بدلاؤ سے کوسوں دور جاتے جائیں گے!!!

آپ کا ”اسٹریس ہارمون“ راتوں رات کم نہیں ہونے والا، یہی وجہ ہے کہ بدلاؤ بھی راتوں رات نہیں آنے والا، اسی لیے ”قبولیت“ پہلا قدم ہوتا ہے، کیونکہ قبولیت آپ کے اضطراب اور اسٹریس کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے… لیکن کیسے؟؟

وہ اس طرح کہ آپ سب سے پہلے اندھیرے میں اپنی آنکھیں کھول کر اس اندھیرے کو ”قبول“ کریں گے اور اسکا ”مشاہدہ“ کریں گے کہ آپ کیوں اندھ-کار اور تاریکی میں ہیں؟ آپ خود پر بدلنے کا دباؤ نہیں ڈال رہے بلکہ آپ صرف سمجھ رہے ہیں، ڈیٹا اکھٹا کررہے ہیں اپنے متعلق۔ آپ جو بھی اس اندھیر نگری میں کررہے ہیں، اسکا مشاہدہ کرتے رہیں، خود کو دیکھتے رہیں، اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھتے رہیں، اپنے جذبات پر نظر ثانی کرتے رہیں، پہلا قدم صرف معاملات کو سمجھنے کا ہوتا ہے۔

اپنے ذہن پر توجہ دیں کہ یہ کہاں گھومتا رہتا ہے، آپ کا ذہن، آپ کا من جہاں ہوگا آپ کا عمل، موٹیویشن سب وہیں ہوگا، جب آپ کا من ہی نہیں ورزش کرنے میں ، آپ کو دلچسپی ہی نہیں صحت مند ہونے میں تو خود سے موٹیویشن کبھی نہیں آئے گی، آپ جسم کو جم یا گھر میں ورزش کرنے کے لیے زبردستی نہیں اٹھا پائیں گے۔ اپنے ذہن پر غور کریں کہ یہ کن چیزوں اور حرکتوں میں ملوث رہتا ہے، ان سرگرمیوں کو کرتے وقت اپنے جذبات پر غور کریں اور انہیں بنا کسی ”شرمندگی“ اور ” احساسِ جرم“ کے قبول کریں۔

میرا یقین کیجیے کہ آپ ایسا نہیں کر پائیں گے!! کیونکہ یہ بہت مشکل کام ہے…… والدین بھی عموماً بچوں سے تب ہی پیار کا اظہار کرتے ہیں جب بچہ اچھا رویہ رکھتا ہے یا اچھی کارکردگی دکھاتا ہے، جہاں بچہ اپنے منفی جذبات یا خوف کا اظہار کرتا ہے تو والدین پٹخ دیتے ہیں اور آپ کے جذبات کو وہیں دبا دیا جاتا ہے۔ آپ بھی ایسا ہی کریں گے اپنے ساتھ، آپ خود سے تبھی پیار کریں گے جب آپ کارکردگی دکھائیں گے، جہاں چوُک ہوئی وہیں آپ کو خود پر غصہ آئے گا!!

خود کو اپنے بہترین وقت میں قبول کرنا، خود سے محبت کرنا آسان ہوتا ہے، اور لوگ بھی چڑھتے سورج کو پوجتے ہیں کیونکہ ان کے لیے بھی آسان ہوتا ہے جب سب اچھا اچھا ہورہا ہو تو وہ بھی خوش ہوتے ہیں اور آپ کو بھرپور پیار ملتا ہے، اس پیار میں مزہ اور پلیژر ضرور ہے اور ایسا پیار لینا چاہیے کیونکہ ہم سماجی مخلوق ہیں اور ہمیں دوسروں سے سراہے جانا اچھا لگتا ہے، اس میں کوئی برائی نہیں،بلکہ اس میں تو ہمارا فائدہ ہوتا ہے…. لیکن اس پیار کی کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ پیار سورج کو تب مل رہا ہے جب وہ ”چڑھ“ رہا ہے، اصل تالیاں تو ”چڑھنے“ کے لیے بج رہی ہیں ”سورج“ کے لیے نہیں، یہی سورج جب ڈوبے گا تب تالیاں بجیں گی؟؟

خود کو اپنے برے وقت میں بھی اتنا ہی پیار اور ہمدردی دیں جتنا کہ جیت کے وقت دیتے ہیں، جیت کے وقت پیار آنا فطری ہے، لیکن ہار کے وقت پیار کرنا سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ یہ فطری نہیں ہے۔

اب یہاں پر ایک بات واضح کرتی چلوں کہ آپ نے ”قبولیت“ کا استعمال کسی ڈھال کی طرح نہیں کرنا، معلوم ہوا کہ اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد آپ نے سالوں سال قبولیت کو ”الزام تراشی“ یا ”مظلومیت“ کے لیے استعمال کیا اور پھر آپ مزید تاریکیوں میں چلے گئے۔ کیونکہ اسکا نقصان بھی آپ کو ہی ہونا ہے، دوسرے نے آپکا کیا بگاڑ لینا ہے!
قبولیت اور مظلومیت میں ایک باریک سا فرق ہے، اور اس کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ قبولیت سے ”ہمدردی“ جنم لیتی ہے جبکہ مظلومیت سے ”بیچارگی“۔

بلکل اسی طرح میں اپنے کلائنٹ کو بھی سمجھاتی ہوں کہ کیسے برے وقت میں خود کے ساتھ ہمدردی اور محبت کرنا ہے، کیونکہ زندگی کسی لکیر کی مانند سیدھی نہیں ہے، یہاں ہمیشہ عروج یا پھر سارے دن اچھے نہیں ہوتے، یہاں زوال اور برے دنوں کا سامنا بھی ہوتا ہے، یہاں آپ ہمیشہ کارکردگی نہیں دکھا سکتے، یہاں آپ کو کبھی کبھار آرام یا کارکردگی نہ دکھانے کی حالت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، آپ کو اس برے دن میں بھی خود سے محبت اور ہمدردی کرنا آنا چاہیے۔

آپ کا بچہ روز اچھے سے سارے کام کرتا ہے آپ بہت خوش ہوتے ہیں لیکن کسی دن اس سے وہ سب نہیں ہوا، یا کسی وجہ سے اسکا دل نہیں کررہا، تو کیا اس دن آپ نے اسے بلکل اسی طرح پیار کیا، جس طرح اچھی کارکردگی دکھانے پر کرتے تھے؟؟
یہی وجہ ہے کہ ہم نہیں سیکھ پاتے کہ خود کو برے اور تاریک لمحوں میں کس طرح قبول کرنا ہے!!!
بہت ممکن ہے کہ آپ بھی ایسے ہی ایک بچے ہوں اور بہت ممکن ہے کہ آپ نے یہ فن نہ سیکھا ہو کیونکہ ماحول میں والدین یہ سب نہیں کرتے تھے، لیکن ابھی آپ سیکھ سکتے ہیں، آپ اپنی تربیت خود کرسکتے ہیں!!

تحریر ، ندا اسحاق


Spread the love

Leave a Comment