پانی کی کہانی ، حیات جاویدانی

Spread the love

پانی ہمارے سیارے کی ایک اہم ضرورت ہے، جو زمین پر زندگی کے وجود کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہماری زمین 97 فیصد پانی پر مشتمل ہے، جبکہ اس میں قابل استعال پانی صرف 3 فیصد ہے۔ پانی نہ صرف ہمیں زندہ رہنے میں مدد کرتا ہے، بلکہ پانی کا ہماری تخلیق سے بھی گہرا تعلق ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے “ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا”۔ (سورة انبياء ، آیت نمبر: 30)

اس آیت میں لفظ “ماء” کا مطلب پانی ہے اور “ماء دافق” کا مطلب پانی کا قطرہ ہے۔ انسانی جسم کی بات کریں تو تقریبا 55 سے 60 فیصد تک انسانی جسم پانی پر مشتمل ہے۔ اور خصوصاً انسانی دماغ کی بات کی جائے تو یہ 75 سے 80 فیصد تک پانی پر مشتمل ہے۔ دماغ کا بنیادی مقصد حافظہ اور یاداشت ہے۔

یہاں میں اک تجربہ آپ کے گوشگزار کرنا چاہوں گی جو 2004 میں جاپان کے اک لکھاری اور تجربہ کار “میسارو-ایموتو ” نے کیا تھا، جسے “پانی کی یاداشت یا واٹر میمور ایکسپیریمنٹ” کہا جاتا ہے، اس تجربہ میں اس نے پانی کے چند نمونے لیے اور اس پانی کو مثبت الفاظ اور تعریفی کلمات کہنا شروع کردیا، دوسری طرف پانی کے چند مذید نمونے لیے اور ان کو منفی الفاظ اور نفرت انگیز کلمات کہنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دونوں پانی کے نمونوں کو جما کر مائیکروسکوپ کے نیچے رکھ کر معائنہ کیا گیا تو جس پانی کو اچھے الفاظ بولے گئے تھے اس کے “سیمٹرک کریسٹل” تھے جبکہ جس پانی کو منفی االفاظ بولے گئے تھے اس کے” کریسٹل ایے سیمٹرک” تھے۔

اس تجربہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی سب یاد رکھتا ہے وہ منفی الفاظ پانی کے اندر ہی رہ کر منفی اثرات ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے دماغ کا 80 فیصد حصہ پانی ہے تو اسی طرح مسلسل منفی ماحول کے زیر اثر رہنے سے اس پانی کی سیمٹری خراب ہو جاتی ہے، جو کئی دماغی امراض کا باعث بنتی ہے۔

ایسے ہی منفی الفاظ نہ صرف دماغ کے پانی کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ انسانوں کے باقی اعضاء کے پانی پر بھی اسکے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارا خون جو 83 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور پورے جسم میں گردش کرتا ہے، اس میں شامل پانی کی سیمٹری خراب ہونے سے اثرات ہر عضو پر مرتب ہوتے ہیں۔

ایسے ہی ہمارے پٹھے 75 فیصد پانی پر مشتمل ہیں، ان میں بگاڑ ہمارے حرکت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ منفی رویوں کو جھیلتے ہیں، ان میں زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی کو مسلسل مثبت الفاظ، محبت اور اپنائیت ملتی ہے وہ لوگ کم بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

بیماریوں کے اسباب مختلف ہیں، میں یہ نہیں کہتی کہ خوش باش لوگ کبھی بیمار نہیں ہوتے، مگر وہ لوگ جن کو لفظوں سے ملے زخم گہرے ہوں وہ زیادہ امراض کے شکار ہوتے ہیں۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھنا صرف یہ نہیں کہ انھیں اچھا کھلایا پہنایا جائے، بلکہ کبھی کبھی اس کا مطلب اپنے منفی لفظوں سے انکو بچانا بھی ہے۔ آپ کے کہے چند الفاظ کسی کی بھی زندگی بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کسی کو کچھ بھی برا بھلا کہنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ یہ الفاظ کیا کچھ کر سکتے ہیں !

حضرت علی رضی الله عنه کا ارشاد ہے کہ “انسان کی اصل خوبصورتی اس کے بولے گئے الفاظ ہیں”۔ پس اپنے الفاظ کو خوبصورت بنائیں اور دل آزاری سے پرہیز کریں۔

پانی انسانی زندگی پر بے شمار اثرات مرتب کرتا ہے ۔انسانی جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے، انسانی حلیوں کی روزمرہ کے بنیادی ری ایکشن میں مدد کرتا ہے، ہمارے جسم کے درجہ حرارت کے متوازن کو برقرار رکھتا ہے، غذا کو ہضم کرنے اور خون میں جذب ہونے میں مدد دیتا ہے، خون کی سرائیت اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرتا ہے، پانی فالتو مواد کو جسم سے خارج کرنے یعنی یورینیشن میں بھی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے گردے صحت مند رہتے ہیں۔ ہماری جلد اور آنکھوں کی صحت مندی کے علاوہ جوڑوں کولبریکیٹ کرتا ہے، ہماری ذہانت اور یاداشت کو برقرار بھی رکھتا ہے۔

پانی کا ایک اہم کردار ہمارا ہارمونل توازن برقرار رکھنے میں بھی ہے۔ موڈ کو اچھا بنانے کے لیے سروٹونین اور ڈوپامین نامی ہارمون کی پیدوار میں پانی کا اہم کردارہے۔ ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے جسم میں کورٹیسول اور اڈرنالین ہارمون زیادہ بنتے ہیں جو غصے اور انزائیٹی کی وجہ بنتے ہیں اسی لئیے کہا جاتا ہے غصے میں پانی پیو۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر نوجوان کو کم از کم دو لیٹر پانی پینا چاہیے جو 6 سے 8 گلاس بنتے ہیں جبکہ عورتوں کو ہر دن ڈھائی لیٹر پانی پینا چاہیے جو 8 سے 10گلاس بنتے ہیں۔

کیا آپ کو پتا ہے زیادہ پانی سے کچھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ کسی بھی چیز کی حد سے زیادہ کمی یا زیادتی نفع بخش نہیں ہوتی۔ پانی کے زیادہ پینے یعنی 10 گلاس سے زیادہ پینے یا کم وقت میں ایک دو لیٹر پی جانے سے جسم میں سوڈیم کی کمی ہو جاتی ہے، واٹر پواسننگ ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے الیکٹرولائیٹس کا توازن بگڑ جاتا ہے اور دماغ کی سوجن شروع ہو جاتی ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ اسکے علاوہ گردوں پر کام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، متلی اور الٹی آنا، پیٹ درد، دورے پڑنا اور کومہ میں چلے جانا جیسے مسائل درپیش آ سکتے ہیں۔

پانی کا پینا کافی نہیں ہے، بلکہ صاف پانی پینا بھی ضروری ہے۔ گندا پانی پینے سے بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، جیسے ہیضہ، بڑا بخار وغیرہ یہ بیماریاں پانی میں موجود جراثیموں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ گندا پانی پینے سے گردوں کے مسائل جیسے کہ پتھری اور گردوں کا فیل ہونا شامل ہے۔ گندا پانی پینے سے پیٹ میں کیڑے پڑ سکتے ہیں، زیادہ عرصہ گندا پانی استعمال کرنے سے کینسر بھی ہو سکتا ہے، دماغی امراض جیسا کہ رسولی، دورے پڑنا، یاداشت ختم ہونا وغیرہ جیسی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ گندے پانی سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ بانجھ پن، بینائی کا چلے جانا اور جلد کی خرابی بھی سامنے آنے والی بیماریاں ہیں۔

اس لئیے ضروری ہے کہ پانی پینے سے پہلے کچھ احتیاتی تدابیر اختیار کریں۔ دو سے تین منٹوں تک پانی کو اوبال کر استعال کریں، پانی میں کلورین کی گولیاں ڈال لیں اور واٹر فلٹر استعال کریں۔

آج کل دوسرے مسائل کی طرح پانی کے مسائل اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ انسان بذات خود ہی ہے۔ مادہ پرستی میں وہ اپنا اچھا برا بھی بھول گیا اور کارخانے لگاتا گیا اور گندگی اور زہریلے کیمیکل پانی میں ملتا گیا۔ گھر بنا لیے اور ڈرینج سمندروں میں ڈال دیے۔ ہم نے پانی میں رہنے والے جانداروں کی کئی نسلیں تباہ کر لی ہیں، اور نہ صرف یہ بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بھی نہیں سوچا۔

ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان کو آنے والے سالوں میں پانی کے فقدان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ اس نعمت کا طریقےطریقے سے استعمال کریں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ ناقدری کرنے والوں سے نعمتیں چھن جایا کرتی ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے؛ “بے شک تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔”


Spread the love

Leave a Comment