کیا انسان کے دو دماغ ہیں؟

Spread the love

ہم میں سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میرا ایک دل کر رہا ہے یہ کام کروں، مگر ایک دل کرتا ہے نہ کروں ( اب آپ پریشان مت ہونا کہ دماغ میں دل کہا سے آ گیا؟) اگر ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو کچھ تفصیلات سامنے آتی ہیں۔
جس میں سب سے پہلی بات تو یہ جس پر سائنس اور قرآن دونوں کا اجماع ہے کہ ہم انسانوں میں ہر اک کا ایک ہی دل ہے۔ ما سوائے ایک جینیاتی بیماری کے جسے “کارڈیک ہیٹرو ٹیکزی” کہا جاتا ہے۔ اس میں دل کی ساخت غیر معمولی ہو جاتی ہے، جو دیکھنے میں 2 دل معلوم ہوتے ہیں، مگر دل اک ہی ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک منفرد اور خاص بیماری “ٹوون ہارٹ”کی ہے، جس میں 2 جڑوا بچوں کا ایک ہی دل ہوتا ہے، پر ایسے بچوں کا زندہ رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کے پاس ایک ہی دل ہوتا ہے۔
جیسے کہ ارشاد ربانی ہے، “ہم نے کسی انسان کے پہلو میں 2 دل نہیں رکھے۔”
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اک ہی دل ہے تو ہم 2 دلوں کی بات کیوں کرتے ہیں؟
کیا واقعی اس سے مراد دل ہے؟ اس کا جواب کئی اختلافات کی گود میں کھیلنے والا بچہ ہے۔
اک رائے کے مطابق دل سے مراد مرکز ہے اور سوچوں کا مرکز دماغ ہے۔ اور ہماری ہی سوچوں کا تضاد ہمیں الجھا دیتا ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ یہ تضاد دل اور دماغ کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہمارا دل بھی سوچ سکتا ہے؟
اس پر قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ بغیر مسائل کے تو ہم ایسا سوچتے نہیں، خیر تو رجوع کرتے ہیں پھر اس حوالے سے، چند مقامات پر کنایوں اور اشاروں کا سامنا ہوتا ہے۔
جیسے ارشاد ہے کہ “تمہارے جسم میں ایک گوشت کا لوتھرا ہے اگر وہ ٹھیک رہے تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے۔” اس دوران حضور نبی کریمؐ کا سینے کی طرف اشارہ ثبوت ہے کہ مرکز دل کو قرار دیا گیا ہے۔ دل دماغ سمیت پورے جسم کو خون فراہم کرتا ہے مرکزی جزو تو ہے پر کیا دل سوچوں کا بھی مرکز ہے؟
یہ سوال کئی سالوں سے محققوں کو کھٹکتا رہا، نئی تحقیق کے مطابق ہمارے دل میں 40 ہزار “نیورو سآئٹس” دریافت ہوئے ہیں۔ نیورو سائٹس ایک خاص قسم کے خلیات کا نام ہے، جو دماغ میں ہوتے ہیں اور سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ لینے میں مدد کرتے ہیں۔ دل میں پائے جانے والے یہ خلیات اپنے کام میں دماغ پر منحصر نہیں کرتے۔ تو ثابت یہ ہوا کہ ہمارا دل بھی سوچ سکتا ہے۔
پس ہم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائیں گے۔ ہم اسی طرح اپنے جملے جو بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں، سمجھنے لگیں تو اچھے سائینس دان ہی نہیں بلکہ اچھے عابد و شاکر بھی بن سکتے ہیں۔
اب یہ کہنے میں کوئی دِکت نہیں کہ انسان کے 2 دماغ ہیں، یعنی سوچنے کے مراکز، اک دل اور دوسرا دماغ۔
دل بھی سوچوں کا مرکز ہے پس اپنا دل کسی کو دینے سے پہلے دماغ استمعال کر کے سوچنا، کہ آپ اپنی عقل کا زریعہ دے رہے ہو جسے اس کے پاس خود کا دماغ ضرور ہو ۔
پس تبھی جب کوئی دلی عارضے لاحق ہوتے ہیں، تو انسان کی عقل ٹخنوں میں کیوں چلی جاتی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی کیوں آ جاتی ہے، اب سمجھے کچھ؟ کیونکہ عقل کا آدھا ذریعہ ہی خراب ہو جاتا ہے۔ محتاط رہیں اور اپنے دل و دماغ کی خود حفاظت خود کریں۔ شکریہ

تحریر ، کائنات سعید


Spread the love

Leave a Comment