منگل کو بشام کے علاقے قراقرم ہائی وے پر دہشتگردی کے واقعہ میں 5 چینی انجینئیر ہلاک ہو گئے تھے، جس کے پیش نظر داسو اور تربیلا ڈیم کے بعد چینی کمپنیوں نے بھاشا ڈیم پر بھی کام روک دیا ہے۔ دیا میر بھاشا ڈیم پر اس وقت 500 چینی باشندے جبکہ 6 ہزار مقامی ورکر کام کر رہے ہیں۔ کام روکنے کی تصدیق جی ایم دیا میر بھاشا ڈیم نزاکت حسین نے کی۔
دیا میر بھاشا ڈیم خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان اور گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے درمیان دریائے سندھ پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی حکومت نے 2006 میں پانچ نئے ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ 2008 میں نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے باضابظہ منظوری دی جس میں بھاشا ڈیم کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ بھاشا ڈیم کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آٹھ ملین ایکڑ کے رقبے پر 272 میٹر کی بلندی کے ساتھ کنکریٹ سے تعمیر ہونے والا دنیا کا بلند ترین ڈیم ہو گا۔
بھاشا ڈیم 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھے گا، جبکہ اس منصوبے پر اب تک 700 بلین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ پراجیکٹ کے آغاز پر 1000 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا جو کہ اب ایکسچینج ریٹ میں اضافے کے باعث 1936 بلین تک چلا گیا ہے۔
اس پراجیکٹ پر ایف ڈبلیو او اور چینی کمپنی چائنہ پاور مل کر کام کر رہے ہیں۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے آخری معاہدہ پاکستانی حکومت نے 13 مئی 2020 کو 442 بلین روپے کا کیا۔ اس منصوبے کی ممکنہ تکمیل 2028 میں ہو گی۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر چینی سفارتخانے کی جانب سے اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں چائنہ کا موقف سانے آیا کہ پاک چائنہ تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی بزدلانہ کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا جبکہ پاک چین تعاون تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا۔
شانگلہ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے چائنہ سے خصوصی انویسٹیگیشن ٹیم بھی پاکستان پہنچی جس نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں چائنہ سے آنے والی ٹیم کو اب تک کی تحقیقات پر بریفنگ دی گئی جبکہ چینی شہریوں کے تحفظ اور مجموعی سیکورٹی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بدھ کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزرائے اعلی اور متعلقہ شعبوں کے آئی جیزنے شرکت کی۔ اجلاس میں آرمی چیف عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر نے ملکی ترقی اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کے لئے بزدلانہ وار کرتے ہوئے ہمارے عزم کا غلط اندازہ لگایا۔ ہم دہشتگردی کے خلاف اس وقت تک لڑیں گے جبکہ تک پاکستان، اس کی عوام اور یہاں کام کرنے والے غیر ملکی مہمانوں پر بری ںظر رکھنے والے دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
بادی النظر میں ایسے واقعات کے رونما ہونے کے پیچھے پڑوس ملک افغانستان میں عسکری جماعتوں کا بے لگام ہونا معلوم ہوتے ہے۔ افغانستان میں عسکری جماعتوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے چند روز پہلے افغانستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے عسکری جماعتوں کے ٹھکانوں کو نشانے پر لیا تھآ جو پاکستان میں دہشتگردی کے ہونے والے واقعات میں ملوث تھے۔
دہشتگردی کے ایسے واقعات ملک کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی عزائم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان میں دہشتگردی کے اثرات کو دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت، معاش، سیاست اور مذہبی معاملات پر گہرے اثرات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، دہشتگردی نے پاکستان کو جمہوری ملک کے بجائے سیکورٹی سٹیٹ بنا دیا جبکہ مذہبی رواداری کو معاشرے سے ختم کر دیا۔ دہشتگردی کے واقعات نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور ملک کے امن و امان کو تباہ کرتے ہوئے مذہبی جنونی گروہ پیدا کئیے۔ دہشتگردی کے واقعات سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے میں رکاوٹ بن کر سامنے آتے ہیں جو کہ ملک کی معاشی صرتحال کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرک سٹی کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کے مقابلے 32 فیصد کم بجلی پیدا کر پاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کا دہشتگردی کے واقعات کے باعث خطرے میں پڑنا انتہائی تشویش ناک ہے۔