تحریر۔ غلام قادر
“خلوۃ” کے معنی ہیں تنہائی، یعنی لوگوں کے ساتھ ظاہری طور پر رہتے ہوئے، باطن میں خدا کے ساتھ ہونا۔ تنہائی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پہلی ظاہری خلوت اور دوسری باطنی خلوت۔
ا) ظاہری خلوت کا تقاضا ہے کہ سالک خود کو ذاتی جگہ پر تنہا رکھے جو لوگوں سے خالی ہو، اپنے نفس کے ساتھ رہ کر وہ ذکرِ اللہ ذکرِ الٰہی پر دھیان دیتا ہے تاکہ اُس کیفیت تک پہنچا جاسکے جہاں عالمِ سماوات ظاہر ہوجائے۔ جب آپ ظاہری حواس پر زنجیر باندھ دیتے ہیں تو آپ کے باطنی حواس عالمِ سماوات تک پہنچنے کیلئے بیدار ہو جا ئینگے۔ یہ آپ کو دوسری قسم میں لے آئے گا: باطنی خلوت۔
۲) باطنی خلوت سے مراد لوگوں میں رہ کہ بھی تنہائی میں رہنا۔ اس میں سالک کا دل اپنے رب کے ساتھ موجود ہونا چاہئے اور ان کے درمیان جسمانی طور پر موجود رہتے ہوئے خلق سے غیر حاضر رہنا چاہئے۔ یہ بیان کیا جاتا ہے : “سالک، اپنے دل میں ذکر ِ خفی میں اس قدر گہرا ڈوبا ہوگا کہ اگر وہ لوگوں کے مجمع میں داخل ہوجائے تو بھی ان کی آوازیں سنائی نہ دیں گی۔ اس پہ ذکر کی کیفیت کا سرور چھا جاتا ہے۔ قُربِ حق کی شان اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ اپنے رب کے سوا سب سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
یہ خلوت کی سب سے افضل حالت ہے اور اس کو حقیقی خلوۃ سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے: “وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ” [24:37]۔
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ۞
“وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی (ایک نئی قسم میں تبدیل ہو جائیں گی)”۔
سورۃ النور (۲۴) آیت ۳۷
سلسلہ نقشبندیہ کا یہی راستہ ہے،
سلسلہ نقشبندیہ کے مشائخ کی بنیادی خلوت، باطنی خلوت ہی ہے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ ہیں اور بیک وقت وہ لوگوں کے ساتھ بھی ہیں۔
جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے:
“میرے دو رُخ ہیں: ایک کا سامنا میرے خالق سے ہے اور ایک کا سامنا خلقت سے ہے”
مولانا شاہ نقشبند کا فرمان ہے:
“ہمارا راستہ رفاقت پہ مبنی ہے اور خیر (بھلائی) جماعت میں ہے”
کہا جاتا ہے کہ وہ مومن جو لوگوں میں گھل مل سکے اور اپنی مشکلات برداشت کر سکے، اُس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے دور رہے۔ اس نازک نکتہ پر امام ربانی نے فرمایا :
یہ علم ہونا ضروری ہے کہ سالک ابتدائی دور میں بیرونی خلوت اختیار کر سکتا ہے، لوگوں سے الگ تھلگ رہنا، اللہ رب العزت کی عبادت اور اس پر توجہ مرکوز رکھے، حتیٰ کہ وہ اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے۔ اس وقت اُسے مشائخ کی طرف سے نصیحت دی جائے گی — شیخ أبو سعيد الخراز کے الفاظ میں :
“کمال معجزاتی طاقت دکھانے میں نہیں بلکہ لوگوں میں اُٹھنا بیٹھنا، خرید و فروخت کرنا اور شادی بیاہ اور اولاد کے معاملات رکھنا —اور پھر بھی اللہ کی بارگاہ سے ایک لمحہ غافل نہ ہونا، یہ کمال ہے۔