شادی شدہ زندگی کے مسائل کیسے کم کریں ؟
آپ سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ رستے میں، آفس میں، فیس بک پر، ہر جگہ مسکراتی لڑکیاں لیکن گھر کر اندر آتے ہی بیوی پر نظر پڑتی ہے جو کام میں مشغول دور سے ہی سلام کر دیتی ہے۔ ایسے میں اسکا انتظار کرنے کی بجائے خود ہی پاس جا کے مسکرا کے حال چال پوچھیں۔ گھر کے کاموں اور بچوں کی مصروفیت میں آپکا واپس آتے ہی پیار سے حال پوچھنا ہی اسکی آدھی تھکن دور کر دے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر لوٹتے، اپنی زوجہ کو پیار سے بوسہ دیتے تھے۔
پھر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیجئے۔ بہت ہلکا سا پرفیوم بھی لگا لیجئے تا کہ آس پاس سے گزرنے والوں کو ایک خوشگوار احساس ہوتا رہے۔ پان/سموکنگ کرنے والے اورل ہائی جین کا خصوصی خیال رکھیں۔ سوچیں کہ لہسن اور پیاز جیسی چیزیں کھا کر اللہ تعالی نے مسجد میں آنا ناپسند فرمایا ہے تا کہ انکی بو باقی نمازیوں کو ناگوار نہ گزرے تو سگریٹ کی بدبو بیوی کو کس قدر ناگوار گزرتی ہو گی۔ اول تو اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش کریں، دوسرا یہ کہ منہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔
محبت کو اظہار اور تجدیدِ اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر آتے ہوئے کبھی پھول یا اسکی پسندیدہ چاکلیٹ یا اسکی پسند کی کوئی چیز لیتے آئیے۔ دن بھر اپنی بیوی کو ہلکا پھلکا ٹیکسٹ میسج بھیج دیں جیسے:
Are you busy? I had something important I forgot to tell you: I love you!
I havent told you in long time how much you mean to me. Thank you for everything that you do.
اسی طرح چپکے سے سرہانے کے نیچے اسکے لئے کوئی پیار بھرا میسج رکھ دیں۔ صفائی کرتے ہوئے اسے سرپرائز مل جائے گا۔ بیگم کا نام ساتھ ضرور لکھ دیجئے گا، ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔
یہ تو تھے فوری کرنے والے آسان کام۔ اب آئیں کچھ ایسی عادتوں کی طرف جس سے بیویاں سخت نالاں ہوتی ہیں اور شوہر بالکل توجہ نہیں کرتے۔ کسی نے کہا ہے کہ
The most important thing a father can do for his children is to love their mother.
بچوں کی بہترین تربیت کا پہلا سٹیپ یہ ہے کہ انکی ماں کو عزت اور محبت دیں۔ جہاں غلطی کرے، پیار سے سمجھا دیں۔ اسکی غلطی پر اسکے گھر والوں کو برا بھلا نہ کہیں۔ بچوں کے سامنے اگر آپ اپنی بیوی کی بےعزتی کریں گے، بچوں لا شعوری طور پر یا آپ کی سائیڈ پر ہو جائیں گے اور ماں کی بات سننا ماننا چھوڑ دیں گے، یا انکی مکمل ہمدردی ماں کی طرف ہو گی (جسکے چانسز زیادہ ہیں( اور آپ اپنا وہ مقام کھو دیں گے جو ایک بچے کے دل میں آپکا ہونا چاہئے۔ آپ اپنی اولاد کے سپر ہیرو سے ویلن کے مقام پر آ جائیں گے۔ بچے سہم جائیں گے، دوستوں میں اپنا اعتماد کم کر بیٹھیں گے، پڑھائی بھی متاثر ہو گی۔ اسکا ایک اور بہت بڑا نقصان بھی ہے۔ یہی بچے کل کو عورت خصوصاً اپنی بیوی کی عزت نہیں کر سکیں گے۔ انہیں یہی معلوم ہو گا کہ عورت کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تحقیق کہتی ہے کہ قریباً %78 مرد جو اپنی بیویوں جو ہراساں کرتے ہیں، انہوں نے اپنے بچپن میں اپنے باپ کو اپنی ماں سے یہی سلوک کرتے دیکھا۔ آپ غور کریں کہ آپ کے آج کے عمل سے کس طرح آپکی نسلیں متاثر ہونگی۔
میں یہ بات دل سے مانتی ہوں کہ جو رزق اور جتنی محبت اللہ نے میرے نصیب میں لکھی ہے، اتنی ہی ملے گی، کم نہ زیادہ۔ یہی بات میں اپنی بہنوں کو سمجھاتی ہوں جو شکایت کرتی ہیں کہ شوہر اپنے گھر والوں پر سارا پیسہ لٹا دیتا ہے اور ہمارے وقت پر بچت کرنا یاد آ جاتا ہے۔ لیکن یہاں آپ یاد رکھیں کہ آپ اپنی بیوی کے کفیل ہیں۔ اسکو ہر مہینے کچھ رقم پاکٹ منی کے طور پر دیں جس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہ کریں۔ وہ چاہے تو اپنے گھر والوں کے لئے کچھ لے، چاہے تو صدقہ کرے، چاہے تو اپنے پاس جمع کر لے۔ اگر وہ خود کماتی ہے تو پھر پاکٹ منی کے بجائے کبھی کھانا کھلانے لے جائیں، یا کہیں گھمانے لے جائیں۔
اسی طرح جب بہنیں بتاتی ہیں کہ کسطرح انکے شوہر کی ساری توجہ اور محبت کا سارا مرکز اسکے اپنے گھر والے ہوتے ہیں اور اسکا کام بس گھر سنبھالنا ہے تو بہت دل دکھتا ہے۔ بےشک میں انہیں کہوں کہ محبت اور خلوص سے تم ایک دن اپنے شوہر کا دل جیت لو گی، آپ سے مجھے یہی کہنا ہے کہ یہ عورت اپنا گھر، اپنے پیارے رشتے، اپنے دوست احباب، حتی کہ اپنی پسند ناپسند بھی چھوڑ کر آپ کے پاس آئی ہے۔ وہ اپنے تمام رشتوں کا پیار آپ میں ڈھونڈتی ہے۔ کبھی ابو کی طرح سینے سے لگا لیں، کبھی امی کی طرح محبت بھری ڈانٹ، کبھی دوستوں کی طرح چھوٹی سی بات پر بے تحاشا ہنسنا۔۔ یہ سب آپکی ذمہ داری ہے۔ اپنی جسمانی، جذباتی، معاشی، معاشرتی ضروریات کے لئے وہ آپکی محتاج ہے۔ کچھ شوہر مالی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے ایک جیتا جاگتا انسان ہے جسکی پیسے کے علاوہ بھی کچھ ضروریات ہیں۔ شوہر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست بنیں۔
کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے کے لئے تعریف اور حوصلہ افزائی چاہئے ہوتی ہے۔ بیوی کو بھی! وہ تیار ہو تو اسکی تعریف کر دیں۔ اچھا کھانا بنائے تو بھی کھلے دل سے کہہ دیں۔ اور چھوٹے چھوٹے آپکے جو کام وہ سارا دن کرتی ہے، ان پر اسکی حوصلہ افزائی کریں۔ آپکا ایک جملہ “تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟” اسکی جان جلا دیتا ہے۔ کسی دن صبح سے رات تک اسکی روٹین دیکھیں، خصوصاً جو خواتیں بچوں والی ہیں، یا سسرال کے ساتھ رہتی ہیں، انکو تو یہ کبھی نہ کہیں۔
آپکو اپنی بیوی کی جو بات پسند نہیں، اسکو محبت سے بتا دیں لیکن دوسری عورتوں کی مثالیں نہ دیں۔ نہ کسی کے حسن کی، سگھڑاپے، عقل مندی کی زیادہ تعریفیں بیگم کے سامنے کریں۔ اسکا موازنہ نہ تو خود کسی اور کے ساتھ کریں، نہ ہی اسکو جتائیں۔
سب باتوں کی ایک بات: اسکو انسان سمجھیں۔ ضروریات کے حوالے سے، احساسات کے حوالے سے، عادات و اطوار کے حوالے سے۔۔۔ اسکو ایک انسان سمجھیں۔
میری دعا ہے کہ ہر گھر میں میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے لئے اتنی محبت اور عزت ہو اور یہ تعلق اسقدر مضبوط ہو کہ شیطان کا ہر ضرب خالی جائے۔ آمین!
نیر تاباں