سوشل میڈیا سیلبریٹیز کا طریقہ واردات یا میری غلط فہمی

Spread the love

سوشل میڈیا سیلبریٹیز کا طریقہ واردات یا میری غلط فہمی

کہا جاتا تھا کہ سوشل میڈیا مصنوعی دنیا ہے، اس کی خوشی و غم عارضی ہے مگر یہ انسان پہ اثرانداز ہوتی ہے۔
دوجا نقطہ نظر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ حقیقی دنیا جیسی ہی اک دنیا ہے۔
آپ اسے مصنوعی سمجھیں یا حقیقتی، یا ایک ہی وقت دونوں موقف اپنائے، آپ کی مرضی۔

کچھ وقت سے اک چیز نوٹ کر رہا ہوں، شاید غور کرنے پہ آپ کو بھی یہی محسوس ہو؛
سوشل میڈیا پر بڑے فین فالونگ رکھنے والے “کچھ” لوگ/ سیلبریٹی جن کا مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ہے، پہلے اپنا کوئی مسئلہ پیش کرتے ہیں، پھر کچھ وقت بعد تشکر کے پیغامات کو پوسٹ کر دیتے ہیں، یا بغیر کوئی مسئلہ پیش کیے وہ بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں یا انجان نے مجھے یہ گفٹ دیا، بہتوں نے مجھے مبارک باد دی، خیر خیریت پوچھی (وغیرہ) اور کہا کہ میں آپ کو پڑھتا ہوں، دیکھتا ہوں، سنتا ہوں، آپ کا فین فالوور ہوں، آپ کو پسند کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ

مثال سے سمجھتے ہیں، اک بندہ یا بندی پوسٹ کرے کہ میرا موبائل خراب ہوگیا، یا مزاح میں عیدی مانگے، یا گپ شپ میں برتھ ڈے گفٹ کی ڈیمانڈ کرے، یا طبعیت خراب ہے، یا فلاں علاقے کی سوغات بہت پسند ہیں وغیرہ جیسی باتیں سوشل میڈیا پہ شئیر کرے۔
اب چونکہ اس شخص کے پاس ہزاروں یا لاکھوں فالوورز ہیں، فالوووز سیلبریٹی کو پسند کرتی ہے تو ایسے میں حاتم طائی کے پیروکار فی سبیل اللہ آفرز کر دیتے ہیں، کچھ ڈائیریکٹ گفٹ بھیج دیتے ہیں، خاص کر جب خاتون/ فیمیل سیلبریٹی کچھ خواہش ظاہر کرے تو۔

اب ہزاروں لاکھوں فالوورز رکھنے والا خواہش ظاہر کرے تو دسواں حصہ ہی صحیح، وہ کچھ نہ کچھ بھیج دیتے ہیں، جو کہ اچھی خاصی رقم یا گفٹس کی بڑی تعداد بنتی ہے، ظالم موج مستی میں مال مفت ہاتھیا لیتے ہیں۔

میں نے گزشتہ عید پہ بھی برائے مزاح لکھا کہ (کچھ) عورتیں/ لڑکیاں ہنسی مزاق میں پرائے مرد دوستوں کا جیب خالی کراتی ہیں، خاص کر برتھ ڈے، شادی اور عید پہ وہ لاڈ میں آ کر لوگوں کے سامنے یا تنہائی میں زبردستی گفٹ کا مطالبہ کرتی ہے یا لاڈ ہی لاڈ میں زبردستی جیب سے نقد رقم نکال لیتی ہیں، ایسی طرح گاڑی کا کرایہ، ہوٹل میں کھانے کا بل، شاپنگ سنٹر میں پسند کی چیز وغیرہ کا خرچ پرائے آدمی کو مروت یا شرم میں پھنسا کر ہڑپ جاتی ہے، یہ سارا کام لاڈ پیار اور آنکھ مچولی سے کیا جاتا ہے، بعض مرد ٹھرک میں جیب لوٹا بیٹھتے ہیں۔ لڑکیوں کا یونیورسٹی میں لڑکوں سے اسائمنٹ بنوانا، فاسٹ فوڈ کھانا اور یاری دوستی میں فون پیکچ لینا مشہور ہے۔

ایسی اکثر خواتین/ لڑکیاں باپ کے گھر میں گزارے والی زندگی بسر کرتی ہیں، یہ لٹرم پٹرم باہر سے پورا کرنے کیلئے انہیں اپنی حد اور عزت نفس پہ کمپرومائز کرنا پڑتی ہے۔ یہی خواتین/ لڑکیاں مرد کی جیب استعمال کرنے کے بعد سہیلیوں کو فاتحانہ اشارہ بھی کرتی ہیں کہ دیکھ کیسے بےوقوف بنایا، جبکہ مرد خود سادہ لوح بن کر اپنے لئے مواقع پیدا کرتا ہے۔

کچھ دن پہلے فیس بک پر اک لڑکی ہی نے لکھا کہ “جو لڑکیاں عیدی (گفٹس) لیتی ہیں وہ بعد میں دیتی بھی ہیں”
( نوٹ، میں نے بار بار لفظ “کچھ” لکھا ہے، یعنی سب خواتین و حضرات ایسے نہیں۔ جبکہ لڑکیوں کا ذکر زیادہ اس لئے ہے کہ کیونکہ میرے مشاہدے میں عموماً لڑکیاں اس کیٹیگری میں آتی ہیں، شائد کچھ مرد بھی یہی واردات کرتے ہوں)

بات سوشل میڈیائی سٹارز کے واردات کی ہو رہی تھی، ظاہر ہے یہ لوگ اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں، ان کے پاس وسائل بھی ہوتے ہیں، یہ نت نئے طریقے جانتے ہیں، سو انہوں نے اپنے مینیجر رکھے ہوتے ہیں جو سب سے پہلے واہ واہ، میری طرف سے تحفہ قبول کریں، فلاں چیز میں بھیج دونگا وغیرہ کے پیغامات بھیج دیتے ہیں، اسی کے سکرین شارٹ لگتے ہیں یا باقی لوگوں کو منتخب بندوں کے کمنٹس پڑھا کے یاد دھانی کرائی جاتی ہے کہ اس کار خیر میں آپ بھی شامل ہو جائیں۔

یہی طریقہ مولوی صاحب بھی اپناتے ہیں، مولوی صاحب سب سے پہلے چندہ بکس میں پانچ سو یا ہزار کا نوٹ پھینک کر مسلمانوں کا جذبہ بیدار کر دیتے ہیں، پھر لوگ دھڑا دھڑ نوٹ صدقہ کرتے ہیں۔

مداری بھی یہی کرتا ہے، وہ آواز لگاتا ہے، اس کا شاگرد سب سے پہلے چار پانچ پکٹ خرید کر کہتا ہے کہ میرے بوڑھے والدین کو بہت افاقہ ہوا ہے، یہ دیکھ کر بیمار لوگ مداری کے چال میں پھنس جاتے۔

پیر صاحب بھی یہی کرتے ہیں، پیر کے چیلے آتے ہی پاؤں پڑ جاتے اور کچھ تو سجدہ کر جاتے کہ ایک دم سے ہمارا دھائیوں کا مسلہ حل ہوگیا، پھر ڈوبتے کو تنکے کا سہرا کے مصداق مسائل میں گھرے لوگ دم ڈلوا کر بکرے اور زیور نظرانے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حالیہ حق خطیب اور دیگر جعلی پیروں کی مثال دیکھ لیں۔

بعین اسی طرح کچھ شوبز سٹار بغیر نام بتائے میڈیا پہ بیان دیتے ہیں کہ کرکٹر، سیاست دان، کاروباری شخصیت نے مجھے ہراس کیا ہے یا مجھے شادی کیلئے پروپوز کیا، وغیرہ
اب اگر یہ بیان حقائق پہ مبنی ہے تو میڈم جی بندے پہ کیس کر لو، نہیں تو کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ایسے بیانات سے لوگوں کی صرف توجہ یعنی سستی شہرت چاہتی ہیں۔ یاد رہے ایسے کچھ بیانات میں وہ ہراسمنٹ والے یا پراپوز کرنے والے کا نام نہیں بتاتی جس سے یہ الزام ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔ ۔ (البتہ کچھ کیس سچے ہوتے ہیں اور اکثر وہ عدالت میں بھی جاتے ہیں)

دنیا بھر میں مارکیٹنگ کے طریقے اسی سے ملتے جلتے ہیں، کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کے صارف کا ریویو پیش کرتی ہے کہ دیکھیں فلاں نے استعمال کیا تو کیسے زبردست ریسپانس آیا۔ ( البتہ کمپنوں کی بات زرا الگ ہے، وہ بنیادی طور پہ بنے ہی سیل اینڈ پرافٹ کیلئے ہیں، جب نظریہ واضح ہے تو ویسا کرنا سمجھ آتا ہے)

لکھاری کا کام ہے کہ لکھے اور اپنے کام کی قیمت ادارے سے وصول کرے، مولوی مذہبی سروس دے کر اپنی تنخواہ لے مگر نظرانوں سے بچے، صحافی اپنے پروگرام کی اور سرکاری ملازم اپنے کام کی تنخواہ لے مگر تحائف کو رد کرے، ٹریولر ٹوورازم سے پیسہ کمائے مگر علاقائی سوغات خریدے مفت میں نہ لے، اسی طرح ٹک ٹاکرز اپنے اکاؤنٹ کا آمدن لے مگر مال مفت کی خواہشات نہ کرے۔
جب اپنے اپنے کام کا معاوضہ وصولتے ہیں تو کوئی پرابلم نہیں، یہی پروفیشنل ازم ہے۔

لیکن جب یہی بندہ یا بندی اپنے کام کے علاؤہ صرف پاپولیرٹی بیچے، یا تحفہ بھیجنے والے کا شکریہ کے ساتھ سکرین شارٹ لگائے اور باقی لوگوں کو ان ڈائیریکٹ گفٹس بھیجنے کی دعوت دے تو یہ غلط ہے، یہ بھوکا پن ہے، یہ پروفیشن پہ دھبہ ہے، یہ بغیر محنت کے سرمایہ جمع کرنے کیلئے آسان واردات ہے۔

واضح رہے کہ ہر ایسا کرنے والے کی وارداتی نیت نہیں ہوتی، “کچھ” لکھنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ سب نہ رگڑے جائیں۔ چند لوگ تحفہ دیکھ کر فرط جذبات میں آ کر پوسٹتے ہیں، چند وصولی بھائی گفٹ بھیجنے والے کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور چند تحفہ وصولی لوگ بڑے عرصے بعد پوسٹ کی کمی پوری کرنے یا حاضری لگانے خاطر ایسا کرتے ہیں۔ البتہ انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ بےخبری میں شاید کچھ ٹھیک نہیں کر رہے۔
لیکن وارداتی سیلبریٹی پورا ناپ تول کے، جملے بنا بنا کے اور اگلا ٹارگٹ سیٹ کر کے گفٹ بھیجنے والے کا ذکر کرتے ہیں تاکہ باقی عوام موٹی ویٹ ہوں۔

اس سب کا حل کیا ہے؟؟؟
حل یہی ہے کہ ذاتی تعلق کو ذاتی رکھیں، کسی نے تحفہ بھیجا ہے، کسی نے علاقائی سوغات بھیجی ہے، کسی نے خیر خیریت پوچھی ہے، یا ہراس کیا ہے، شادی کیلئے پروپوز کیا ہے تو اسے وہیں ڈیل کریں۔ کیونکہ یہ دو بندوں کا آپسی معاملہ ہے، اس سوشل میڈیا پہ لگا کر باقی لوگوں کو متاثر/انفولنس نہ کیا جائے۔

میری رائے سے آپ جزوی یا کلی طور پہ اعتراض یا اعتراف کر سکتے ہیں، مجھ سے کچھ پوانٹس رہ گئے تو آپ کمنٹ کر کے ایڈ کر سکتے ہیں۔
اس تحریر پہ اپنا مشاہدہ/ رائے دیں اور اسے شئیر کر کے خبردار اور بے خبر وارداتی تک پہنچائیں۔ شکریہ

تحریر ، عمیر خان آباد


Spread the love

Leave a Comment