مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے۔
مکمل سوال بھی زرا دلچسپ ہے۔پہلے اس پہ توجہ ہوجائے۔
سوال: بلال تم نے انگریزی میں ماسٹرز کیا ہے، ہندوکوان پہچان ہے، پشتون فیملی سے تعلق رکھتے ہو اور اس پہ طُرفہ تماشا کہ انگریزی کے سکول و کالج سطح پہ استاد رہ چکے ہو۔ مگر تمھارے ہاں اردو کی محبت رچی ہوئی ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے؟
اس سوال کے ضمن میں پانچ مختصر وجوہات پیشِ خدمت ہیں
وجہ نمبر ۱: محبت کی زبان (شاعرانہ)
میرا اک انڈین دوست ہے۔ وہ اکثر مجھے کہتا ہے کہ مجھے اردو سکھاؤ، الفاظ کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے اور کچھ نئے محاورے بھی ہوجائیں۔ جب میں اس سے اس دلچسپی کی وجہ پوچھتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ انڈین سینما میں سب سے زیادہ شاعرانہ لطف اس زبان میں محسوس ہوتا ہے۔ اپنا بھی یہی حال ہے کہ اردو میں جو شستگی اور شاعرانہ پن ہے وہ خال ہی ملتا ہے۔ بلکہ سمپورن سنگھ گلزار کی بات کو سیکنڈ کروں گا۔
یہ زمین پہ بیٹھو، تب بھی رائل ہونے کا مزہ دیتی ہے۔
وجہ نمبر۲: تشنگی اظہار بجھانے لائق
میں جب بھی اپنے خیالا ت کو کسی زبان میں اتارنے لگتا ہوں تو کئی بار مجھے محسوس ہوتا ہے کہ فلاں لفظ اردو میں خوب ملتا ہے۔ ایک پیاس جو تقریبا بجھ جاتی ہے جب اردو میں لکھتا یا کہتا ہوں۔اگر آپ اک خیال کو اردو اور انگریزی میں منتقل کروگے۔ تب آپ کو قدرے مبالغہ آرائی سے منور اردو ملے گی۔صرف کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ہم مختلف الفاظ کا سہارا لے سکتے ہیں۔یوں تکرار یعنی باربار زکر کرنے سے کانوں کو برا بھی محسوس نہیں ہوتا اور دلچسپی بھی رہتی ہے۔
مثال نمبر ۱: کیفیت، حالت، ڈھنگ، روش، انداز، اسلوب، وضع دیگر۔
مثال نمبر۲: کھڑکی، جھروکا، روشندان، باری، طاق، دریچہ، بادپروا، روزن دیگر۔
وجہ نمبر۳: ڈیسنٹ انداز
مجھے اکثر ہنسی آتی ہے جب وہی اک گالی جو دوست کسی دوسری زبان میں کہے اور اردو قالب میں اتارے تو دو مختلف کیفیات دیتی ہے۔ گالی اردو میں حلول ہوکر میٹھے پان کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے۔ غصہ بھرے جملوں پہ وارفتگی سی محسوس ہوتی ہے۔ایک طرح سے اردو زبان گالم گلوچ کیااندر چھپے کانٹے کو الگ کردیتی ہے۔ گو اس سے اس لفظ کا مقصد کافی حد تک فوت بھی ہوتا ہے۔مگر میں subjective basis پہ اسے پسند کرتا ہوں۔ کسی میٹھی خارش کی طرح جو ہلکا ہلکا درد بھی دیتی ہے مگر لطف مسلسل قائم رہتا ہے۔
وجہ نمبر۴: یادیں سیریز
میرا بچپن اک دور افتادہ گاؤں یعنی بالاکوٹ میں گزرا۔ شہروں میں بسنے والے قارین سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے چھٹیوں میں وہ پلان کر کے اس ٹورسٹ سپاٹ کی سیر کرپاتے تھے۔ اس دور دراز ہونے کی وجہ سے مجھے جدید دنیا میں لنک بنانے میں اردو زبان میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ بچوں کی کہانیاں ہوں، گلزار کی شاعری ہو، احمد ندیم قاسمی کے افسانے ہوں، مختار مسعود کی شاندار نثر ہو یا ضیاء محی الدین کی ادائیگی ہو۔اسی طرح شفیع محمد (مرحوم اداکار) کی سپاٹ انداز میں کہے ڈائیلاگز ہوں۔مشتاق احمد یوسفی تو سبھی کو یاد ہیں مگر پطرس بخاری کے مضامین سے لے کر بیگم ریاض الدین اختر کے سفر نامے بھی دل میں موجزن رہتے تھے۔
وجہ نمبر۵: اک شخصیت سا روپ
میں اردو زبان کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے غالب کا روپ تخلیل میں جمنے لگتا ہے۔ مخصوس نوابی انداز کا پہناوا، ٹھہر ٹھہر کر چلنا، مزاح ایسے کرنے کے چہرے کے تاثرات کی بجائے لفظوں کے اندر اترنا پڑے، میٹھے پانی سے جملوں کی ادائیگی اک باتہذیب انسان کو جنم دیتی ہوں محسوس ہوتی ہے۔المختصر مجھے اک تہذیب، باقاعدہ پروان چڑھتی مختلف النوع ثقافتوں کا میلاپ مزہ دیتا ہے۔ اردو اپنا سینہ کھولے کرشن چندر (ہندو)،راجندر سنگھ بیدی (سکھ)، گھوپی چند نارنگ(عیسائی) اور جگن ناتھ آزاد (ہندو) سبھی کو قبول کرتی ہے۔ ان کو کسی بھی فلٹرز میں سے گزارے بغیر اپنائیت دیتی ہے۔ ہاں آفاقیت سی محسوس ہوتی ہے۔
تحریر ، بلال مختار
