سلمان علی
جنس کی بنیاد پر تشدد ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں 16 دن کی سرگرمیوں کے عنوان سے مہم چلائی جاتی ہے۔ یہ مہم 25 نومبر سے 10 دسمبر تک جاری رہتی ہے۔ اس مہم کا بنیادی مقصد خواتین، لڑکیوں اور دیگر متاثرہ گروپوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ حال ہی میں ڈبلیو ایچ او (WHO) کی اک رپورٹ کے مطابق سالانہ 3 میں سے 1 خاتون کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ہر سال2.4 ارب خواتین اور لڑکیاں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے۔
یہاں بات کرے پاکستان کی تو محض گزشتہ برس 2023 میں پاکستان میں جنسی تشدد پر 480 کیسس درج کیے گیے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن اف پاکستان (Law and Justice Commission of Pakistan) کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 196 کیسز رپورٹ کیے گیے اسی طرح بلوچستان میں 150، خیبر پختونخوا میں 105، سندھ میں 27 اور اسلام آباد میں 2 کیسز رپورٹ کیے گیے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو رکارڈ کا حصہ ہیں اور نا جانے کتنے ہی واقعات بدنامی کے ڈر سے سامنے نہیں آتے۔ ایسے میں انسداد جنسی تشدد کی مہم ایک مشعل ہے جو تشدد کے اندھیرے کو ختم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں اس مہم کے آغاز کے لیے 25 نومبر کی تاریخ کو ہی کیوں چنا گیا؟
یہ بات ہے 1950 کی دہائی کے آخر کی جب ڈومینیکن ریپبلک (Dominican Republic) میں ایک آمر حکمران رافیل ٹروجیلو تھا۔ وہ اپنی حکومت میں عوام پر سخت جبر کرتا اور اپنے مخالفین کو قید اور قتل کردیتا۔ اس دور میں، منیوروا ، پاتریا ، اور ماریا میرابال نے اپنے ملک میں جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور سیاسی مزاحمت کا حصہ بنیں۔ ان بہنوں نے اپنی زندگی کو اس تحریک میں لگا دیا جو ٹروجیلو کے جبر و ظلم کے خلاف لڑ رہی تھی۔ 25 نومبر 1960 کو رافیل ٹروجیلو کی حکومت نے ان بہنوں کو قتل کروا دیا۔ ان کے قتل پر ڈومینیکن عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا۔ ان کی قربانی اور جدوجہد نے نہ صرف ڈومینیکن ریپبلک بلکہ دنیا بھر میں صنفی تشدد کے خلاف ایک توانا آواز بن کر سامنے آئیں۔ ان بہنوں کی اس عظیم قربانی پر انہیں “مارپوساس” (تتلیوں) کے لقب سے پکارا جانے لگا۔
16 دن کی مہم برائے انسداد تشدد کا آغاز 1991 میں امریکی ریاست نیو جرسی کی یونیورسٹی آف رٹگرز کے ویمن گلوبل لیڈرشپ انسٹیٹوٹ کی جانب سے کیا گیا۔ اور بعد میں یہ دن خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔1991 سے اب تک دنیا بھر میں سرکاری، نجی ادارے اور انسانی حقوق سے وابستہ افراد ان 16 دن کی سرگرمیوں میں ہر قسم کے تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اور خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت سی این جی اوز انسداد تشدد کی مہم کا حصہ بنتے ہیں۔ ان میں سر فہرست لیگل ایڈ سوسائٹی ہے جو سندھ کے 8 اضلاع میں خواتین کے حقوق اور صنفی تشدد پر مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کرتی ہے۔ جن میں خواتین کے قانونی حقوق کی آگاہی، نکاح نامہ اور بنیادی حقوق کی مکمل معلومات شامل ہے۔
اس مہم کا مقصد صنفی تشدد کے خلاف عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنا اور خواتین، لڑکیوں اور دیگر متاثرہ افراد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 16 دن کی یہ مہم اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تشدد کے خلاف جدوجہد ایک ضروری اور جاری عمل ہے۔ پاکستان میں بھی جنسی تشدد کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں، اور ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ 25 نومبر کو اس مہم کا آغاز اس لیے کیا گیا تاکہ ہمیں یاد رہے کہ تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دن نہیں، بلکہ مسلسل کوششیں درکار ہیں۔ اس مہم کے ذریعے، ہم سب کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہر فرد کا حق ہے کہ وہ بغیر کسی خوف یا جبر کے آزادانہ زندگی گزارے۔