ہم پرنس کریم آغا خان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

Spread the love

اپنے آپ کو ایک 20 سالہ نوجوان کے طور پہ تصور کریں۔
جو آکسفورڈ میں پڑھائی کر رہا تھا کہ اچانک اس کے دادا کا انتقال ہوا۔
دادا نے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو جانشین بنانے کی بجائے
پوتے پرنس کریم آغا خان کو منتخب کیا ہوا تھا۔

اور یوں وہ اسماعیلی سکول کے حادثاتی طور پہ رہنما بنے۔
ان کی زندگی سے سیکھے جانے لائق پانچ اہم اسباق درج ذیل ہیں:

سبق نمبر۱: نیٹ ورکنگ یعنی تعلقات بنانا۔
کہتے ہیں کہ یوگنڈا کے صدر عیدی امین نے 90 دن کی مہلت دیکر انڈین اور پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے ہماری اکانومی پہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ ملکہ ایلزبتھ دوئم اور جسٹن ٹروڈ کے باپ (اس وقت کا وزیراعظم) سے اچھے تعلقات کی بناء پہ پرنس نے کئی ہزار لوگوں کی باحفاظت ہجرت کروائی۔ اسی سبب اسماعیلی پیروکاروں کی بڑی تعداد برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں پائی جاتی ہے۔

سبق نمبر۲: بلیک میلنگ کے لیے زیرو رستہ۔
اک رات آئرلینڈ کے اک اصطبل سے پرنس کا دنیا بھر میں مشہور گھوڑا غائب کردیا گیا۔ یہ وہ گھوڑا تھا جس نے اک اہم ریس میں فرلانگ کے حساب سے دوسرے نمبر والے گھوڑے کو ہرایا تھا۔ اگر آپ نے گھوڑوں کی ریس دیکھی ہو تو سیکنڈز اور ملی میٹرز کے فرق سے نمبر ون نمبر دو بن جاتا ہے۔ (Shergar) نامی اس اعلی نوعیت کو چھوڑے کی قیمت لگائی گی اور بڑھائی بھی گی۔ مگر پرنس اور اس کی لوکل باڈی نے بلیک میل نہیں ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو مستقبل میں بھی ایسے گھوڑے چوری ہونگے اور بھاری رقم بھرنی ہوگی۔ کہتے ہیں کہ آج بھی اس قیمتی گھوڑے کا پتہ نہیں چلا۔

سبق نمبر۳: ذاتی زندگی کو جتنا پرائیوٹ کرسکیں۔
پرنس کی دو بیویاں تھیں اور دونوں کا اختتام طلاق پہ ہوا۔عدالت میں کیسسز گے۔ طلاق پہ بھاری رقوم دی گیں۔ مگر کنفرمیشن کے ساتھ علیحدگی کی اصل وجوہات کیا تھیں، اس پہ کوئی فائنل رائے نہیں ملتی۔ جب آپ مشہور شخصیت بن جائیں تو اپنی فیملی کے معاملات کو جتنا چھپا کر رکھ سکتے ہیں، رکھیں۔

سبق نمبر ۴: انسان دوستی سب سے آگے۔
عام انسان کی زندگی میں دولت کی فراوانی آجائے تو وہ صرف عیش اور بینک بیلنس کو ضرب دینے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ مگر پرنس ارب پتی ہونے کے باوجود اہم ہسپتال بناتا ہے، فنانس کے ادارے کھولتا ہے، یونیورسٹی کھولتا ہے، گلگت بلتستان کے لوگوں کی فلاح کے پروجیکٹس پہ کام کرتا ہے۔ بلکہ اپنی اک تقریر کے اینڈ پہ کہتا ہے کہ اک روح سے تقسیم ہوکر مرد عورت بچے اور سبھی پیدا ہوتے چلے گے۔ یہ رنگ نسل بعد کی چیزیں ہیں۔
ہم سب اک روح کے تخلیق کردہ ہے۔

سبق نمبر ۵: کام نہیں رکنا چاہیے
ہماری زندگی میں حادثات ہوجائیں۔ تو ہم کئی کئی ہفتے بے دم و ساکت بیٹھے رہتے ہیں۔ مگر 13 مئی 2015ء کو کراچی میں 43 اسماعیلی جان سے گے۔ کہتے ہیں کہ اگلے دن سارا شہر بند تھا مگر آغا خان ہسپتال اوپن اور مستعدی سے کام کر رہا تھا۔ حالاں کہ سیکورٹی کے کافی ایشوز بن سکتے تھے۔

تحریر، بلال مختار


Spread the love

Leave a Comment