“City Of Spies” ثریا خان کا ناول

Spread the love

ثریا خان کا ناول

“City Of Spies”

اس اعتبار سے نہایت دلچسپ ہے کہ اس کے توسط سے ہمیں کسی حد تک ان دھندلائے ہوئے حقائق کا سراغ ملتا ہے جنہیں ہم شاید آج بھی تسلیم کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ یہ ناول ایک ہی کنبے کے افراد کا متضاد ماحول میں رہنے کے سبب ان پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور اس کے مختلف نتائج کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
جاسوسوں کا شہر نہایت تدبیر کے ساتھ ذاتی اور سیاسی حدوں کو یکجا کرتا ہے۔ جس میں عالیہ کی اس بات کو سمجھنے کی کوششوں میں وقت کی بین الاقوامی پیچیدگیوں کو مہارت کے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ ” کون سے خصائص اسے دوسروں سے منفرد بناتے ہیں اور کون سے عوامل اسے اقدار و روایات کے ساتھ جڑے رہنے پر پابند رکھتے ہیں ۔” یہ وہ عالیہ ہے کہ جسکا بچپن اور مصنفہ کا اسلام آباد ان سے اتنا دور ہے کہ اس بارے میں لکھنے سے ہی اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا جاسکتا تھا۔

یہ لطیف سیاسی ناول ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء کے ادوار میں رونما ہونے والے منظرناموں کو بھی نہایت خوبصورتی سے اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم اس میں اس بات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ریاست ایک نو عمر لڑکی کے دماغ میں چھپی ہوئی ہے اور اس کے ماضی کی جاسوسی کر رہی ہے۔ البتہ بہت سے لوگ شاید میرے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں لیکن جاسوسوں کے شہر کو ایک اور طالبہ کی کہانی کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے، ایک مختلف ملالہ کے طور پر۔ اک ایسی ملالہ جو احساس کا ایک بالکل نیا پہلو پیش کرتی ہے۔ جب ڈرائیور ایک لڑکے کو مار ڈالتا ہے تب گیارہ سالہ عالیہ جو آدھی پاکستانی اور آدھی ڈچ ہے سانحہ کی حقیقت کو جان لیتی ہے جسکے بعد اس کی متضاد وفاداریوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ یوں ایک نوجوان لڑکی (ثریا خان) کے نقطہ نظر سے

CITY OF SPIES

میں ایران کے یرغمالی بحران کے وقت امریکہ اور پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں اس وقت کا تناؤ اور کشیدگیاں آج سے بہت متعلق دکھائی دیتی ہیں۔
یہ ناول آپکو باور کرائے گا کہ بعض اوقات بچے بھی اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والی تاریخ کی گواہی دیتے ہیں جسکا کل انحصار نہ صرف انکی اپنی بصیرت اور ذاتی مشاہدات پر ہوتا ہے بلکہ انکی حرکات و ترجیحات بھی اس میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
درحقیقت عالیہ کی متضاد وفاداریوں اور اس کی دنیا کو سمجھنے کے لئے اس کی جاری جدوجہد کو تلاش کرتی اس کہانی میں اس کے گرد جاسوسوں کا گھیرا ہو سکتا ہے جسمیں اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں خاص طور پر جب وہ دوہری شہریت کی حامل ہو۔

محبت کی روشنائی سے لکھی گئی اس کہانی کو جدید ناولوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن اسکا آخری ورق پلٹنے پر محسوس ہوتا ہے کہ ثریا کو ناولوں کی مزید تشکیل کے لئے سراہا جانا چاہیے جس سے انکے کے مجموعی ارتقاء کو فروغ ملنے کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
اس ناول سے مکمل اتفاق کرنا قطعی ضروری نہیں کیونکہ تاریخی واقعات کے درست یا غلط ہونے کا تعین کرنے کے لئے بہت گہری تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے تاہم میرے خیال میں اسے اک بہترین فکشن کے طور پر بھی ضرور پڑھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اسے تخیلات کے دھاگے اور لفظوں کے موتیوں میں نہایت خوبصورتی اور مہارت سے پرویا گیا ہے۔

فرحان خان


Spread the love

Leave a Comment