اہل بیت عظام کا خصوصی استحقاق محبت و احترام اور صحابہ کرام کے رویے

Spread the love

کچھ عرصے سے ایک عجیب رجحان اہل سنت کے بعض افراد اور حلقوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے کہ اہل بیت عظام کے خصوصی فضائل و مناقب کا ذکر کر دیا جائے تو ان کا تقابل و موازنہ دیگر صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے ساتھ کر دیا جاتا ہے (جن کے مخصوص فضائل و مناقب کا ذکر بھی قران و سنت میں موجود ہے) حالانکہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور توقیر قرآن و سنت کا واضح حکم اور ان سے محبت کا اظہار عین سنت نبوی ہے، سنت خلفائے راشدین ہے اور صحابہ کرام کا طرز عمل بھی یہی ہے، اس سے صحابہ کرام و خلفائے راشدین کی عظمت و مقام میں کمی یا تنقیص کا پہلو نکالنا نہ صرف ان ہستیوں کے خصوصی مقام بلکہ مقام نبوت سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے۔

اہل بیت کرام کی خصوصی عزت محبت اور احترام کا استحقاق،

  1. قران حکیم کی آیت مودۃ القربی (الشوری ) اور آیت تطہیر (الاحزاب) اہل بیت کی خصوصی شان کو نمایاں کرتی ہیں جن میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ازواج مطہرات بھی شامل ہیں۔
  2. اہل بیت کی بے توقیری اور بے ادبی قران حکیم کی رو سے اذیت نبوی کا باعث ہے جو اللہ تعالی کو کسی صورت میں گوارا نہیں، اللہ تعالی نے اپنے محبوب کے جذبات و احساسات کی رعایت کرتے ہوئے ایسے لوگوں پر لعنت اور رسوا کن عذاب کی وعید سنائی ہے (الاحزاب)
  3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ عترت رسول (اہل بیت) سے تمسک کی خصوصی ہدایت فرمائی ہے اور ایک موقع پر تین دفعہ اس بات کو دہرایا ہے کہ میرے اہل بیت کے حق میں اللہ سے ڈرو (مسلم )

4۔ حضرت علی سے محبت کرنے والے کو مومن اور ان سے بغض رکھنے والے کو منافق قرار دیا ہے (مسلم)

  1. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا ہے (بخاری و مسلم)
  2. حضرات حسنین کریمین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اظہار مختلف احادیث سے ہوتا ہے، بلکہ ایک دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت کرنے کی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی ہے، ایک اور روایت میں انہیں اپنے بیٹے اور نواسے قرار دیتے ہوئے یہ دعا فرمائی ہے”اے اللہ مجھے ان دونوں سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت فرما اور ان سے بھی محبت فرما جنہیں ان سے محبت ہے” (ترمذی)
    یہی دعا حضرت حسن اور حضرت حسین کے لیے الگ الگ بھی احادیث میں موجود ہے (بخاری، مسلم ،ترمذی)

7۔ درود ابراہیمی کی فضیلت کی ایک وجہ اس میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا موجود ہونا ہے اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درود شریف کا پورا ثواب حاصل کرنے کے لیے جس درود کی تعلیم دی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں” اللہم صلی علی محمدن النبی و ازواجہ امہات المومنین وذریتہ واہل بیتہ کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید (ابو داؤد) اسی لیے امام شافعی اہل بیت سے محبت کو قرآنی فریضہ قرار دیتے ہیں اور ایک شعر میں فرماتے ہیں
یکفیکم من عظیم الفخرانکم
من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ
(اے اہل بیت تمہاری عظمت شان کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز بھی قبول نہیں)

  1. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اہل بیت کی مثال کشتی نوح سے دی ہے جو اس میں سوار ہو گیا بچ گیا جو پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا (مسند احمد )

صحابہ کرام کے اہل بیت سے رویے :

انہی وجوہات اور رشتہ قرابت نبوی کی بنا پر کبار صحابہ اور خلفائے راشدین بھی اہل بیت سے ترجیحی سلوک رکھتے تھے اور حد درجہ تعظیم و تکریم کا معاملہ فرماتے تھے۔

  1. حضرت ابوبکر فرماتے ہیں “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ قرابت مجھے اپنے قرابت داروں سے تعلق سے زیادہ محبوب ہے” ( بخاری)
  2. آپ نے حضرت حسن کو بچپن میں دیکھا تو کندھے پر اٹھا کر فرمایا “میرے باپ آپ پر فدا ہوں آپ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت میں سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں”
  3. حضرت عمر تو دعا فرماتے تھے “اے اللہ! ہم اپنے نبی کے وسیلہ سے آپ سے دعائیں مانگتے تھے تو آپ بارش برساتے تھے اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (حضرت عباس) کا وسیلہ پیش کرتے ہیں تو ہم پر بارش برسا دے”( بخاری).
  4. حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرات حسنین کو اپنے بیٹوں پر ترجیح دیتے تھے اور ان کے وظائف بدری صحابہ کے برابر مقرر کیے تھے اور ان کی اس حد تک تکریم کرتے تھے کہ اپنے سروں کی عظمت و تکریم کا سبب بھی انہیں قراردیتےتھے(الاصابۃ)
  5. حضرت عمر اور حضرت عثمان جب سواری پر گزرتے اور حضرت عباس پیدل ہوتے تو ان کے وہاں سے گزرنے تک سواری سے نیچے اترجاتے تھے۔
  6. حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں “جب میں حضرت حسن کو دیکھتا ہوں تو فرط محبت میں میری انکھوں سے انسو جاری ہو جاتے ہیں”( مسند احمد) ایک موقع پر ایک جنازے میں شرکت کے بعد راستے میں استراحت فرما رہے تھے تو حضرت ابوھریرۃ اپنی چادر سے آپ کے قدموں کا غبار صاف کرنے لگے اس پر انہوں نے حیرانگی کا اظہار فرمایا تو حضرت ابو ھریرۃ فرمانے لگے “اگر لوگوں کو آپ کے مقام ومرتبہ کا معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو لوگ آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھریں (تاریخ ابن عساکر، سیر اعلام النبلاء)
  7. بعض سیاسی امور میں اختلاف کے باوجود حضرت امیر معاویہ حضرت علی سے بعض علمی مسائل میں رجوع فرماتے اور کبھی حضرت علی کے فضائل سنانے کا تقاضا کرتے۔ ایک موقع پر روتے ہوئے یہ دعا کی ” اے اللہ ! ابو الحسن پر رحم فرما “(الاستیعاب)
  8. حضرت عمرو بن العاص ایک موقع پر کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے تو حسنین کریمین پاس سے گزرے تو دیکھ کر فرمایا “یہ اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں”(الاستیعاب )

اہل بیت کے خصوصی مقام و مرتبے اور صحابہ کرام کے ترجیحی سلوک کی بنا پر ائمہ فقہاء، اساطین علم، کبار مشائخ و صوفیاء بھی صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان سے محبت کو اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے تھے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ اہل بیت کے دفاع، حمایت اور عشق کی سزا میں جیل سے نکلا ہے، امام مالک نے عباسی گورنر مدینہ کی طرف سے کوڑے کھانے کے باوجود قرابت نبوی کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے معاف کر دیا۔ امام احمد ابن حنبل اہل بیت سے محبت کا اظہار کرتے تو آنکھوں سے انسو رواں ہوجاتے حتی کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی (مناقب ابن حنبل ),امام شافعی کا عشق اہل بیت تو زبان زد عام ہے بالخصوص ان کا یہ شعر
ان کان حب آل محمد رفض
فلیشھد الثقلان انی رافضی
( اگر آل محمد سے محبت رفض( شیعیت) ہے تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں) ،محدث کبیر امام نسائی کو دمشق میں (جہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ممبروں پر برا بھلا کہا جاتا تھا) ،فضائل علی بیان کرنے پر زد و کوب کیا گیا اور انہی زخموں کی تاب نہ لا کر ان کا انتقال ہوا۔

اہل بیت کے اسی خصوصی مرتبے کی بنا پر ابن تیمیہ فرماتے ہیں”آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت پر وہ حقوق ہیں جن میں دوسرے لوگ ان کے ساتھ شریک نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل زیادہ محبت اور موالات کی مستحق ہے جس محبت کے قریش کے دیگر قبائل مستحق نہیں”

حضرت شیخ مجدد الف ثانی اپنے والد بزرگوار کے حوالے سے( جو کہ علم ظاہری اور باطنی کے جامع تھے) لکھتے ہیں “وہ اکثر اوقات اہل بیت کی محبت کی ترغیب دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے اس محبت کو سلامتی خاتمہ میں بڑا دخل ہے لہذا اس کی بہت زیادہ رعایت رکھنی چاہیے” (مکتوبات مجدد الف ثانی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی ہونے کی نسبت سے اہل مدینہ سے محبت بھی ایمان کا تقاضا ہے اور شاہ ولی اللہ کے بقول اہل مدینہ کی کدورت کے ساتھ مواجہ شریفہ پر حاضر ہونے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اس کدورت کی تلخی ٹپکتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے کچھ فیض حاصل نہیں ہوتا (فیوض الحرمین) اہل بیت کے ساتھ محبت و مودت کا حکم ان سے بڑھ کر ہے اور احادیث کی رو سےان سے بغض اور کدورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کدورت قرار دی گیا ہے، اس اعتبار سے اہل بیت سے متعلق معمولی کدورت بھی ایمانی اور روحانی اعتبار سے سخت مہلک اور نقصان دہ ہے جس پر بعض اہل علم اور اصحاب باطن کے مشاہدات وتاثرات بھی گواہ ہیں۔

دنیا کی مختلف زبانوں میں نثر اور شاعری کے ذریعے اہل دل و اہل زبان نے اہل بیت سے اپنی عقیدت و محبت کے نذ رانے پیش کیے ہیں اور ان کے دامن سے منسلک ہونے کو اپنی بخشش، نجات سلامتی خاتمہ اور شفاعت کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں بھی اہل بیت عظام اور جملہ صحابہ کرام کی حقیقی محبت، اتباع اور شفاعت نصیب فرمائے۔


Spread the love

Leave a Comment